آیت:
تفسیر سورۂ شمس
تفسیر سورۂ شمس
آیت: 1 - 15 #
{وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا (1) وَالْقَمَرِ إِذَا تَلَاهَا (2) وَالنَّهَارِ إِذَا جَلَّاهَا (3) وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَاهَا (4) وَالسَّمَاءِ وَمَا بَنَاهَا (5) وَالْأَرْضِ وَمَا طَحَاهَا (6) وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا (7) فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا (8) قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا (9) وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا (10) كَذَّبَتْ ثَمُودُ بِطَغْوَاهَا (11) إِذِ انْبَعَثَ أَشْقَاهَا (12) فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ نَاقَةَ اللَّهِ وَسُقْيَاهَا (13) فَكَذَّبُوهُ فَعَقَرُوهَا فَدَمْدَمَ عَلَيْهِمْ رَبُّهُمْ بِذَنْبِهِمْ فَسَوَّاهَا (14) وَلَا يَخَافُ عُقْبَاهَا (15)}.
قسم ہے سورج کی اور اس کی روشنی کی(1) اور چاند کی جب وہ اس کےپیچھے آتا ہے(2) اور دن کی جب وہ سورج کو روشن کر دیتا ہے(3) اور رات کی جب وہ ڈھانپ لیتی ہے اس کو(4) اور آسمان کی اور اس ذات کی جس نے اس کو بنایا(5) اور زمین کی اور اس ذات کی جس نے اس کو بچھایا(6) اور (انسانی) نفس کی اور اس ذات کی جس نے اسے ٹھیک ٹھاک کیا(7) پھر القا کیا اسے اس کی بدکرداری اور اس کی پرہیز گاری کا(8) یقیناً فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا(9) یقیناً ناکام ہوا وہ جس نے نفس کو دبا دیا (10) جھٹلایا قوم ثمود نے اپنی سرکشی کی وجہ سے (11) جب اٹھ کھڑا ہوا بڑا بدبخت اس قوم کا (12) پس کہا ان سے اللہ کے رسول نے، (حفاظت کرو تم) اللہ کی اونٹنی کی اور اس کو پانی پلانے کی (13) پس انھوں نے جھٹلایا اس کو ، پھر انھوں نے مار ڈالااس( اونٹنی) کو پس تباہی ڈال دی ان پر ان کے رب نے بوجہ ان کے گناہ کے، پھر برابر (ملیا میٹ) کر دیا ان کو (14) اور نہیں ڈرتا وہ اس(اپنے کام) کے انجام سے (15)
#
{1 ـ 6} أقسم تعالى بهذه الآيات العظيمة على النفس المفلحة وغيرها من النفوس الفاجرة، فقال: {والشمس وضُحاها}؛ أي: نورها ونفعها الصادر منها، {والقمر إذا تلاها}؛ أي: تبعها في المنازل والنور، {والنَّهار إذا جلاَّها}؛ أي: جلَّى ما على وجه الأرض وأوضحه، {والليل إذا يغشاها}؛ أي: يغشى وجه الأرض، فيكون ما عليها مظلماً؛ فتعاقُبُ الظُّلمة والضياء والشمس والقمر على هذا العالم بانتظام وإتقانٍ وقيامٍ لمصالح العباد أكبر دليل على أن الله بكلِّ شيءٍ عليمٌ وعلى كلِّ شيءٍ قديرٌ، وأنَّه المعبود وحده، الذي كلُّ معبودٍ سواه باطل ، {والسَّماء وما بناها}: يحتمل أن {ما} موصولة، فيكون الإقسام بالسماء وبانيها، وهو الله تعالى ، ويحتمل أنها مصدريَّة، فيكون الإقسام بالسماء وبنيانها الذي هو غاية ما يقدَّر من الإحكام والإتقان والإحسان. ونحو هذا قوله: {والأرضِ وما طحاها}؛ أي: مدَّها ووسَّعها، فتمكَّن الخلق حينئذٍ من الانتفاع بها بجميع أوجه الانتفاع.
[6-1] اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان عظیم آیات کے ذریعے سے فلاح یاب نفس اور اس کے علاوہ فاسق و فاجر نفوس پر قسم کھائی ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿وَالشَّ٘مْسِ وَضُحٰؔىهَا﴾ یعنی سورج ، اس کی روشنی اور اس سے صادر ہونے والے فوائد کی قسم ﴿وَالْ٘قَ٘مَرِ اِذَا تَلٰىهَا﴾ ’’اور چاند کی جب اس کے پیچھے نکلے۔‘‘ یعنی جب چاند منازل اور روشنی میں سورج کے پیچھے چلے۔ ﴿وَالنَّهَارِ اِذَا جَلّٰىهَا﴾ ’’اور دن کی جب اسے چمکادے۔‘‘ یعنی جب وہ روئے زمین پر تمام چیزوں کو روشن اور واضح کر دے۔ ﴿وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰىهَا﴾ ’’اور رات کی جب اسے چھپالے۔‘‘ یعنی جب وہ تمام سطح زمین کو ڈھانپ لے اور زمین پر موجود ہر چیز تاریک ہو جائے۔اس عالم میں اندھیرے اور اجالے، سورج اور چاند کا ایک نظم اور مہارت کے ساتھ بندوں کے مصالح کے قیام کے لیے ایک دوسرے کا تعاقب کرنا اس حقیقت کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھتا ہے اور ہر چیز پر قادر ہے، وہ اکیلا معبود ہے جس کے سوا ہر معبود باطل ہے۔ ﴿وَالسَّمَآءِ وَمَا بَنٰىهَا﴾ ’’اور آسمان کی اور جس نے اسے بنایا۔‘‘اس میں احتمال ہے کہ مَا موصولہ ہو، تب یہ قسم آسمان اور اس کے بنانے والے، یعنی اللہ تعالیٰ کی ہے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ مَا مصدریہ ہو تب قسم آسمان اور اس کے بنانے کی ہے جو مضبوطی، مہارت اور خوبصورتی کے ساتھ بنانے پر قادر ہونے کی غایت و انتہا ہے۔ اسی کے مانند اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ﴿وَالْاَرْضِ وَمَا طَحٰؔىهَا﴾ ’’اور زمین کی اور اس کی جس نے اسے پھیلایا۔‘‘ یعنی زمین کو پھیلایا اور اس کو وسعت عطا کی، تب اس وقت مخلوق اس سے ہر قسم کا فائدہ اٹھانے پر قادر ہوئی۔
#
{7 ـ 8} {ونفسٍ وما سوَّاها}: يحتمل أنَّ المراد: ونفس سائر المخلوقات الحيوانيَّة؛ كما يؤيِّد هذا العموم، ويُحتمل أنَّ الإقسام بنفس الإنسان المكلَّف؛ بدليل ما يأتي بعده. وعلى كل؛ فالنفس آيةٌ كبيرةٌ من آياته التي يحقُّ الإقسام بها ؛ فإنَّها في غاية اللُّطف والخفَّة، سريعة التنقُّل والحركة والتغيُّر والتأثُّر والانفعالات النفسيَّة من الهمِّ والإرادة والقصد والحبِّ والبغض، وهي التي لولاها؛ لكان البدن مجرَّد تمثال لا فائدة فيه، وتسويتها على ما هي عليه آيةٌ من آيات الله العظيمة.
[7، 8] ﴿وَنَفْ٘سٍ وَّمَا سَوّٰىهَا﴾ ’’اور نفس کی اور اس کی جس نے اس (کے اعضاء) کو برابر کیا۔‘‘ اس میں ایک احتمال یہ ہے کہ اس میں تمام حیوانی مخلوق کا نفس مراد ہو جیسا کہ لفظ کا عموم اس کی تائید کرتا ہے۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ صرف مکلف انسان کے نفس کی قسم ہو جس پر اس کے بعد آنے والی آیات دلالت کرتی ہیں۔دونوں معنوں کے مطابق نفس ایک بہت بڑی نشانی ہے جو اس کی قسم کو حق ثابت کرتی ہے، کیونکہ نفس انتہائی لطیف اور خفیف ہے۔ منتقل ہونے، حرکت، تغیر و تبدل، تاثر اور انفعالات نفسیہ، مثلاً: ہم و غم، ارادہ، قصد، محبت اور نفرت میں بہت تیز ہے۔ اگر نفس نہ ہو تو بدن مجرد بت ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اور اس ہیئت میں اس کو درست کرنا جو اس وقت ہے، اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔
#
{9 ـ 10} وقوله: {قد أفلح من زكَّاها}؛ أي: طهَّر نفسه من الذُّنوب، ونقَّاها من العيوب، ورقَّاها بطاعة الله، وعلاَّها بالعلم النافع والعمل الصالح، {وقد خاب من دسَّاها}؛ أي: أخفى نفسه الكريمة التي ليست حقيقة بقمعها وإخفائها بالتدنُّس بالرَّذائل والدُّنوِّ من العيوب والذُّنوب ، وترك ما يكمِّلها وينمِّيها، واستعمال ما يشينها ويدسِّيها.
[9، 10] ﴿قَدْ اَفْ٘لَ٘حَ مَنْ زَؔكّٰىهَا﴾ یعنی جس نے اپنے نفس کو گناہوں سے پاک کیا، عیوب سے صاف کیا، اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ذریعے سے اس کو ترقی دی اور علم نافع اور عمل صالح کے ذریعے سے اس کو بلند کیا، وہ کامیاب ہوا۔ ﴿وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾ ’’اور وہ ناکام ہوا جس نے اسے چھپایا۔‘‘ یعنی جس نے اپنے نفس کریمہ کورذائل کے میل کچیل کے ذریعے سے عیوب اور گناہوں کے قریب ہو کر ان امور کو ترک کر کے جو اس کی تکمیل اور نشوونما کرتے ہیں اور ان امور کو استعمال میں لا کر جو اس کو بد صورت بناتے اور بگاڑتے ہیں، چھپایا وہ ناکام رہا۔
#
{11 ـ 15} {كذَّبت ثمود بطَغْواها}؛ أي: بسبب طغيانها وترفُّعها عن الحقِّ وعتوِّها على رسولهم ، {إذ انبعث أشقاها}؛ أي: أشقى القبيلة ، وهو قُدَار بن سالف؛ لعقرها؛ حين اتَّفقوا على ذلك وأمروه فائتمر لهم، {فقال لهم رسولُ اللهِ}: صالحٌ عليه السلام محذِّراً: {ناقة الله وسُقْياها}؛ أي: احذروا عقر ناقة الله التي جعلها لكم آيةً عظيمةً، ولا تقابلوا نعمة الله عليكم بسقي لبنها أن تعقروها، فكذَّبوا نبيَّهم صالحاً، {فعقروها فدمدم عليهم ربُّهم بذنبهم}؛ أي: دمَّر عليهم، وعمَّهم بعقابه، وأرسل عليهم الصَّيحة من فوقهم والرَّجفة من تحتهم، فأصبحوا جاثمين على ركبهم، لا تجد منهم داعياً ولا مجيباً، {فسوَّاها}: عليهم؛ أي: سوَّى بينهم في العقوبة ، {ولا يخافُ عُقْباها}؛ أي: تبعتها. وكيف يخاف من هو قاهر لا يخرج عن قهره وتصرُّفه مخلوقٌ. الحكيم في كلِّ ما قضاه وشرعه.
[15-11] ﴿كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ بِطَغْوٰىهَاۤ﴾ ثمود نے اپنی سرکشی، حق کے مقابلے میں تکبر اور اللہ کے رسولوں کی نافرمانی کر کے تکذیب کی۔ ﴿اِذِ انْۢبَعَثَ اَشْقٰىهَا﴾ جب قبیلے کا بدبخت ترین شخص قدار بن سالف اونٹنی کی کونچیں کاٹنے کے لیے اس وقت اٹھا، جب سب نے اس (جرم) اتفاق پر کیا اور اسے ایسا کرنے کا حکم دیا تو اس نے ان کی اطاعت کی۔ ﴿فَقَالَ لَهُمْ رَسُوْلُ اللّٰهِ﴾ تو اللہ کے رسول ، یعنی صالحu نے ان کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا: ﴿نَاقَةَ اللّٰهِ وَسُقْیٰهَا﴾ یعنی اللہ تعالیٰ کی اونٹنی کی کونچیں کاٹنے سے باز رہو جس کو اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے عظیم نشانی بنایا اور اس کا دودھ پلا کر اللہ تعالیٰ نے تم کو جس نعمت سے نوازا ہے، اس کے جواب میں اونٹنی کو ہلاک نہ کرو۔ پس انھوں نے اپنے نبی حضرت صالحu کو جھٹلایا: ﴿فَعَقَرُوْهَا١۪ۙ ۬ فَدَمْدَمَ عَلَیْهِمْ رَبُّهُمْ بِذَنْۢبِهِمْ ﴾ ’’ پس اس نے اس کی کونچیں کاٹ دیں تو ان کے رب نے ان کے گناہ کے باعث ان پر عذاب نازل کیا۔‘‘ یعنی ان کو برباد کر دیا اور سب کو عذاب کی لپیٹ میں لے لیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اوپر سے ایک چنگھاڑ اور نیچے سے زلزلہ بھیجا تو وہ اپنے گھٹنوں کے بل اوندھے پڑے رہ گئے۔ تو ان میں کوئی پکارنے والا پائے گا نہ جواب دینے والا ﴿ فَسَوّٰىهَا﴾ ان پر اس بستی کو برابر کر دیا یعنی اس عذاب میں سب کو برابر کر دیا۔ ﴿ وَلَا یَخَافُ عُقْبٰهَا﴾ ’’اور اس کو ان کے بدلہ لینے کا کچھ بھی ڈر نہیں۔‘‘ یعنی اس کے تاوان سے، وہ ڈر بھی کیسے سکتا ہے جبکہ وہ قہر والا ہے ۔ اس کے قہر اور تصرف سے کوئی مخلوق باہر نہیں، اس نے جو فیصلہ کیا اور جو کام مشروع کیا، وہ اس میں حکمت والا ہے۔