آیت:
تفسیر سورۂ قریش
تفسیر سورۂ قریش
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 4 #
{لِإِيلَافِ قُرَيْشٍ (1) إِيلَافِهِمْ رِحْلَةَ الشِّتَاءِ وَالصَّيْفِ (2) فَلْيَعْبُدُوا رَبَّ هَذَا الْبَيْتِ (3) الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ وَآمَنَهُمْ مِنْ خَوْفٍ (4)}
بوجہ مانوس ہونے قریش کے(1) ( یعنی ) مانوس ہونا ان کا سفر سے سردی اور گرمی کے(2) پس چاہیے کہ وہ عبادت کریں مالک کی اس گھر (کعبہ) کے(3) وہ ذات جس نے کھانا کھلایا ان کو بھوک میں اور امن دیا ان کو خوف سے(4)
#
{1 ـ 4} قال كثيرٌ من المفسِّرين: إنَّ الجارَّ والمجرور متعلِّقٌ بالسورة التي قبلها؛ أي: فعلنا ما فعلنا بأصحاب الفيل؛ لأجل قريشٍ وأمنهم واستقامة مصالحهم وانتظام رحلتهم في الشتاء لليمن وفي الصيف للشام لأجل التِّجارة والمكاسب. فأهلك الله من أرادهم بسوءٍ، وعظم أمر الحرم وأهله في قلوب العرب، حتى احترموهم، ولم يعترضوا لهم في أيِّ سفرٍ أرادوا، ولهذا أمرهم الله بالشكر، فقال: {فَلْيَعْبُدوا ربَّ هذا البيتِ}؛ أي: ليوحِّدوه ويُخْلِصوا له العبادة، {الذي أطْعَمَهُم من جوعٍ وآمَنَهُم من خوفٍ}: فرغدُ الرِّزق والأمن من الخوف من أكبر النِّعم الدنيويَّة الموجبة لشكر الله تعالى. فلك اللهمَّ الحمد والشُّكر على نعمك الظَّاهرة والباطنة. وخصَّ الله الربوبيَّة بالبيت لفضله وشرفه، وإلاَّ؛ فهو ربُّ كلِّ شيءٍ.
[4-1] بہت سے مفسرین نے کہا ہے کہ جار اور مجرور کا تعلق ما قبل سورۃ سے ہے ، یعنی ہم نے اصحاب فیل کے ساتھ جو کچھ کیا وہ قریش، ان کے لیے امن، ان کے مصالح کی درستی، تجارت اور کسب معاش کے لیے سردیوں میں یمن کی طرف اور گرمیوں میں شام کی طرف ان کے سفر کی خاطر کیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان تمام لوگوں کو ہلاک کر دیا جنھوں نے ان کے بارے میں کسی برائی کا ارادہ کیا۔ عربوں کے دلوں میں حرم اور اہل حرم کے معاملے کو تعظیم بخشی، یہاں تک کہ عرب قریش کا احترام کرنے لگے، قریش جہاں بھی سفر کا ارادہ کرتے تو عرب معترض نہ ہوتے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو شکر ادا کرنے کا حکم دیا۔ فرمایا: ﴿فَلْیَعْبُدُوْا رَبَّ هٰؔذَا الْبَیْتِ﴾ ’’پس اس گھر کے رب کی عبادت کریں۔‘‘ یعنی اس کی توحید بیان کریں اور اس کے لیے عبادت کو خالص کریں۔ ﴿الَّذِیْۤ اَطْعَمَهُمْ مِّنْ جُوْعٍ ١ۙ ۬ وَّاٰمَنَهُمْ مِّنْ خَوْفٍ﴾ ’’جس نے انھیں بھوک میں کھانا دیا اور خوف سے امن و امان دیا۔‘‘ رزق میں کشادگی، خوف کے حالات میں امن سے بہرہ مند ہونا سب سے بڑی دنیاوی نعمت ہے جو اللہ تعالیٰ کے شکر کی موجب ہے ۔ اے اللہ! اپنی ظاہری اور باطنی نعمتوں پر تو ہی ہر قسم کی حمد و ثنا اور شکر کا مستحق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کے ساتھ اپنی ربوبیت کو اس کے فضل و شرف کی وجہ سے مخصوص کیا ہے ورنہ تو وہ ہر چیز کا رب ہے۔